Wednesday, February 14, 2018
Friday, February 9, 2018
اسی سے ہوتا ہے ظاہر جو حال درد کا ہے
سبھی کو کوئی نہ کوئی وبال درد کا ہے
٭
سحر سسکتے ہوئے آسمان سے اُتری
تو دِل نے جان لیا یہ بھی سال درد کا ہے
٭
اب اُسکے بعد کوئی رابطہ نہیں رکھنا
یہ بات طئے ہوئی تھی لیکن سوال درد کا ہے
٭
یہ دِل،یہ اُجڑی ہوئی چشمِ نم، یہ تنہائی
ہمارے پاس تو جو بھی ہے مال درد کا ہے
٭
یہ جھانک لیتی ہے دِل سے جو دوسرے دِل میں
میری نگاہ میں سارا کمال درد کا ہے
٭
دِلوں پہ زندہ تھا، دِل ہی نہیں رہے یہاں
اب ایسے شہر میں جینا محال درد کا ہے
٭شاعر: فرحتؔ عباس شاہ
کمپوزڈ : یحییٰ خان
سُنا ہے تیرے نگر جابسا ہے بے چارہ
سُناؤ! کیسا وہاں حال درد کا ہے
٭
کہ ہم نے کسی کیلئے جان عذاب میں ڈالی
ہمیں تو آج بھی خود سے ملال درد کا ہے
٭
یہ عشق ہے اس سے تیمارداریاں کیسی!
اِس سے نہ پوچھ یہ بوڑھا نڈھال درد کا ہے
٭
یہیں کہیں میرے اندر کوئی تڑپتا ہے
یہیں کہیں پہ کوئی یرغمال درد کا ہے
٭
کسی نے پوچھا کہ فرحتؔ بہت حسین ہو تم
تو مسکراکے کہا، سب جمال درد کا ہے
٭
سبھی کو کوئی نہ کوئی وبال درد کا ہے
٭
سحر سسکتے ہوئے آسمان سے اُتری
تو دِل نے جان لیا یہ بھی سال درد کا ہے
٭
اب اُسکے بعد کوئی رابطہ نہیں رکھنا
یہ بات طئے ہوئی تھی لیکن سوال درد کا ہے
٭
یہ دِل،یہ اُجڑی ہوئی چشمِ نم، یہ تنہائی
ہمارے پاس تو جو بھی ہے مال درد کا ہے
٭
یہ جھانک لیتی ہے دِل سے جو دوسرے دِل میں
میری نگاہ میں سارا کمال درد کا ہے
٭
دِلوں پہ زندہ تھا، دِل ہی نہیں رہے یہاں
اب ایسے شہر میں جینا محال درد کا ہے
٭شاعر: فرحتؔ عباس شاہ
کمپوزڈ : یحییٰ خان
سُنا ہے تیرے نگر جابسا ہے بے چارہ
سُناؤ! کیسا وہاں حال درد کا ہے
٭
کہ ہم نے کسی کیلئے جان عذاب میں ڈالی
ہمیں تو آج بھی خود سے ملال درد کا ہے
٭
یہ عشق ہے اس سے تیمارداریاں کیسی!
اِس سے نہ پوچھ یہ بوڑھا نڈھال درد کا ہے
٭
یہیں کہیں میرے اندر کوئی تڑپتا ہے
یہیں کہیں پہ کوئی یرغمال درد کا ہے
٭
کسی نے پوچھا کہ فرحتؔ بہت حسین ہو تم
تو مسکراکے کہا، سب جمال درد کا ہے
٭
Friday, February 2, 2018
اکثر ایسا ہوتا ہیکہ ہم اپنی سوچوں میں گُم ہمت ہارنے
کے قریب ہوتے ہیں کہ اچانک کچھ ایسے الفاظ پڑھنے کو ملتے ہیں
جس سے حوصلہ بحال ہوجاتا ہے
یہ اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے
وہ ہمیں اُمید کی کِرن تھمادیتا ہے
چاند کا کِردار اپنایا ہم نے دوستو
داغ اپنے پاس رکھے روشنی بانٹا کئے
جس شخص نے دیکھا ہے مجھے بھیڑ میں ہنستے
اُس نے میری تنہائی کا منظر نہیں دیکھا
یاد رہ جاتی ہے بیگانہ روی اپنوں کی
وقت کا کیا ہے بہر حال گزر جاتا ہے
غرور اچھا نہیں کسی بھی شئے پر یہاں
جلتی لکڑی بھی کبھی پیڑ ہوا کرتی تھی
راوش کمار
Subscribe to:
Posts (Atom)