جمعہ، 9 فروری، 2018

اسی سے ہوتا ہے ظاہر جو حال درد کا ہے
سبھی کو کوئی نہ کوئی وبال درد کا ہے
٭
سحر سسکتے ہوئے آسمان سے اُتری
تو دِل نے جان لیا یہ بھی سال درد کا ہے
٭
اب اُسکے بعد کوئی رابطہ نہیں رکھنا
یہ بات طئے ہوئی تھی لیکن سوال درد کا ہے
٭
یہ دِل،یہ اُجڑی ہوئی چشمِ نم، یہ تنہائی
ہمارے پاس تو جو بھی ہے مال درد کا ہے
٭
یہ جھانک لیتی ہے دِل سے جو دوسرے دِل میں
میری نگاہ میں سارا کمال درد کا ہے
٭
دِلوں پہ زندہ تھا، دِل ہی نہیں رہے یہاں
اب ایسے شہر میں جینا محال درد کا ہے

٭شاعر: فرحتؔ عباس شاہ
کمپوزڈ : یحییٰ خان

سُنا ہے تیرے نگر جابسا ہے بے چارہ
سُناؤ! کیسا وہاں حال درد کا ہے
٭
کہ ہم نے کسی کیلئے جان عذاب میں ڈالی
ہمیں تو آج بھی خود سے ملال درد کا ہے
٭
یہ عشق ہے اس سے تیمارداریاں کیسی!
اِس سے نہ پوچھ یہ بوڑھا نڈھال درد کا ہے
٭
یہیں کہیں میرے اندر کوئی تڑپتا ہے
یہیں کہیں پہ کوئی یرغمال درد کا ہے
٭
کسی نے پوچھا کہ فرحتؔ بہت حسین ہو تم
تو مسکراکے کہا، سب جمال درد کا ہے
٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں