میرے کاروبار میں سب نے بڑی امداد کی
داد لوگوں کی ، گلا اپنا ، غزل استاد کی
۔
اپنی سانسیں بیچ کر میں نے جسے آباد کی
وہ گلی جنت تو اب بھی ہے مگر شداّد کی
۔
عمر بھر چلتے رھے آنکھوں پہ پٹی باندھ کر
زندگی کو ڈھونڈنے میں زندگی برباد کی
۔
داستانوں کے سبھی کردار کم ھونے لگے
آج کاغذ چُنتی پھرتی ھے پری بغداد کی ۔
شاعر : ڈاکٹرراحت اندوری
داد لوگوں کی ، گلا اپنا ، غزل استاد کی
۔
اپنی سانسیں بیچ کر میں نے جسے آباد کی
وہ گلی جنت تو اب بھی ہے مگر شداّد کی
۔
عمر بھر چلتے رھے آنکھوں پہ پٹی باندھ کر
زندگی کو ڈھونڈنے میں زندگی برباد کی
۔
داستانوں کے سبھی کردار کم ھونے لگے
آج کاغذ چُنتی پھرتی ھے پری بغداد کی ۔
شاعر : ڈاکٹرراحت اندوری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں